Dosti,pyar aur Zindagi Online Novel by Madiha Muhammad Anwar


 Dosti, pyar aur Zindagi Novel by Madiha Muhammad Anwar


Online Novel Dosti,pyar aur Zindagi by Madiha Muhammad Anwar


Love story based friend ship based romantic novel 

Interesting urdu online novel available in Urdu novel nagri web


دوستی  پیار اور زندگی


فجر کی آذان سننے کے بعد نماز کے لے وضو کیا نماز ادا کرنے کے بعد ہاتھ آسمان کی جانب اٹھائے خدا سے دعا مانگ رہی تھی سدرہ کی پہلی دعا ہمیشہ کی طرح اپنے پاک وطن پاکستان کی سلامتی کی ہوتی۔

***

رات میں ہونے والی بارش کے بعد صبح کا موسم بہت ہی خوش گوار ہو گیا سورج کی مدھم کرنیں بہت ہی خوب صورت اور دلکش منظر بیاں کر رہی تھی صبح کی ٹھنڈی ہوا جسم کو تازگی بخش رہی تھی قوئل۔ اپنی میٹھی میٹھی آواز سے خدا کی حمدُوثناء بیاں کر رہی تھی وہی دوسرےپرندے بھی خدا کی تعریف کرنے میں مشغول تھے ہر طرف پرندوں کی چہچاہٹ نے ماحول کو خوش گوار بنا دیا

**سدرہ اپنے والد کے لے چائ لائی چائ پینے کے بعد سدرہ کے والد نے  تاکید کی اپنے بھائیوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دینا سدرہ جو تاکید کرنے کے بعد معمول کی طرح اپنی جوب پر چلےگئے سدرہ کے والد پرائیوٹ کمپنی میں اک ملازم کی حیثیت سے کام کرتے اور ساتھ ہی اک تنظیم کے رکُن بھی تھے کام کے دوران موبائل استمال کرنے کیاجازت نہیں تھی پھر بھی ٹائم نکال کر گھر کا احوال پوچھتے

***

سدرہ،عاشر۔منیب اور عابدہ کی اولاد تھے۔جو کہ اک میڈل کلاس   فیملی سے تعلق رکھتھے تھے۔کچھ سال قبل سدرہ کی ملاقات ایان سے ہوئی تھی۔گاڑی پارک کرتے ہوے ایان نے سدرہ کو مخاطب کرتے ہوے ٹائم پوچھا؟  

سدرہ نے ٹائم بتایا اور اگے چلی گی ایان بازار میں کسی ڈھیل کے سلسلے سے آیا ہوا تھا جب کہ سدرہ ثناء کی برتھڈے کے لے گفت خریدنے آئی تھی اک خوبصورت سے سندرھی خریدی اپنے لیے اک چادر خریدی پرس ہاتھ میں لٹکائے سدرہ اپنی گاڑی کی جانب بڑی ایان کی آواز کانوں میں اتے ہی سدرہ روکھی۔

السلام علیکم۔! کیسی ہے آپ؟ 

وعلیکم السلام ۔ الحمداللہ 

سدرہ نے بھی خوش مزاجی سے  جواب دیا  ٹھوڑی سے بات کرنے کے بعد سدرہ نے گاڑی اسٹاٹ کی  اور گھر کے جانب روانہ ہوئی ***

سدرہ نے دوپہر کا کھانا بنانے کے لے کچن کا رخ کیا۔کچن میں گندے برتن دیکھ کر پہلے برتن دھوئے کچن۔ صاف کرنے کے بعد اماں کے پاس گئی ۔

اماں "

آج کھانے میں کیا بناؤ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا 

اماں کی غصے بھری نگاہ دیکھ کر کمرے سے باہر جانے میں عافیت جانی اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اماں کی آواز ای 

ٹینڈے گوشت بنا لوں 

اماں کی بات پر عمل کرتے ہوے سبزی صاف کرنے لگی 

میز پر کھانا رکھتے ہوے اماں ابا اور بھائی کو آواز لگائی عاشر نے کھانا دیکھتے ہوے کہا مجھے بھوک نہیں کمرے کی جانب بڑا دراز  سے گاڑی  کی چابی نکالی۔سدرہ چپ چاپ یہ منظر دیکھتے ہوے کھانا کھانے لگی 

***

آیاں حمزہ دو بھائی تھے والد اور والدہ کی وفات کو دو سال چکے تھے۔آیاں اور حمزہ اپنے ذاتی گھر میں رہتے تھے ۔ابو کی وفات کے بعد آیاں نے اپنا بزنس خود سمبھالے لگا اور حمزہ دل لگا کر  پڑھائی کرنے  لگا 

ایان میٹنگ اٹینڈ کرنے کے بعد رات کو گھر لوٹا۔باتھ لینے کے بعد بیڈ پر لیٹتے نگاہ چھت کی جانب کیے ہوے سدرہ کا خیال آیا ۔

سدرہ کا خیال آیا تکیہ ہاتھ میں لے بھیٹ گیا ۔سدرہ سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوچنے لگا سدرہ کی پہلی ملاقات نے آیاں کو عشق کے  حصار میں گیر لے تھا آیاں رات کے تیسرے پہر اٹھ کر نمازے تہجد ادا کی اور خدا سے اپنے والدین کی مغفرت کی دعا کی جائے نماز پر بیھٹے تسبی پر رہا تھا وقت کا پتہ ہی نہیں چلا

صبح صادق کا وقت ہو گیا موذن اپنی خوب صورت آواز میں سب کو بھلائی کی دعوت دے رہا تھا  ہر جگہ اللّه اکبر کی صدائیں بلند ہو رہی تھی نماز فجر ادا کر کر ناشتہ کیا اور کام پر جانے کی تیاری کرنے لگا 

***

رات گئے عاشر گھر آیا سدرہ بھائی کا انتظار کرتے کرتے نہ جانے کب سدرہ کی آنکھ لگ گی تھی صبح اماں کی آواز سے بیدار ہوئی اپنا دھو پٹہ اوڑا وضو کرنے کے بعد نماز ادا کر کے کچن کا رخ کیا ناشتہ کرتے نے بتایا۔ہم دوسری جگہ گھر شفٹ کر رہے ہے کل ہی تمہارے بھائی نے اک گھر دیکھا ہے آج ہی ساری پیکنگ کرو ہم اس مہینے کے آخر میں گھر شفٹ کر رہے ہے سدرہ اماں کے ساتھ سامان پیک کیا صبح ہی نیو گھر میں شفٹ ہو گے سامان سمیٹنے ہوے اماں کے لے چائ بنائی.اماں دوپہر کے کھانے کے لے بازار سبزی لینے گی  کچھ ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی سدرہ نے دروازہ کھولا سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر ساکت کھڑی رہ گی ***

عاشر نے بڑے بھائی آیاں کو دن کا حال احوال سنایا اور ساتھ ہی بتایا کے ساتھ والے گھر پر نئے لوگ آئے ہے انکل کافی اچھی طبعیت کے مالک ہے ان کا اک بیٹا عاشر ہے جس سے کل میری دوستی ہوئی ہے آیاں نے حمزہ کی بات سنتے ہوے کہا چلوں !! اچھی بات ہے شام کو انکل کو گھر بلاتے ہے اس بہانے ہماری۔ ملاقات بھی ہو جاۓ گی عاشر نے آیاں کا کہنا مانتے ہوے جی  کہا اور سامنے پڑی کتاب پڑھنے لگا 

***

سدرہ نے دروازہ کھولا تو سامنے آیاں کو دیکھ کر ساکت کھڑی رہ گئی لمبا قد۔کالے بال بھاری آواز کے ساتھ سدرہ کو سلام کیا سلام کا جواب نہ آیا تو دروازہ پر دستک دی سدرہ ہوش میں آنے کے بعد شرمندہ سے ہوئی اسے کے ساتھ آیاں نے اپنا تعارف کرتے ہوے بتایامیں سامنے والے گھر میں پر رہتا ہوں آپ کے والد سے ملاقات کرنی تھی سدرہ نے بتایا والد گھر پر نہیں ہے کام کے سلسلے۔سے باہر گے ہے آ جاۓ تو بتا دو گی آپ اندر تشریف لائے  

آیاں کام نے بہانا بنایا اور جانے کے لے اجازت چاہی۔

***

وقت یوں ہی گزرتا گیا آیاں اور سدرہ کی دوستی گہری سے گہری ہوتی گئی آیاں کو سدرہ سے مبحت ہونے لگی تھی لیکن سدرہ آیاں سے "بے لوث دوستی،پر خلوص دوستی، کبھی نہ ختم ہونے والی دوستی" چاہتی تھی شام میں اکثر چائے کا اہتمام ہوتا آیاں سدرہ کو اپنے دل کا حال بتانے چاہتا تھا مذاق پر بھی پیار بری بتاتیں کرتا تو سدرہ بات پلٹ دیتی آیاں کو معلوم تھا سدرہ کبھی بھی اظہارِ مبحت نہیں کرے گی 

***

آیاں نے دل میں ارادہ کیا آج انکل سے سدرہ کا ہاتھ لے مانگے گا آیاں آج بہت ذیادہ خوش تھا  اور دل ہی دل میں بہت زیادہ بیچینی تھی کے انکل سے سدرہ کا ہاتھ کس  طرح  مانگے آیاں کی نظر گھڑی پر پڑی تو دوپہر کے ٣ بج رہے تھے اک لمحہ بھی آیاں کو اک گھینٹہ کے برابر لگ رہا تھا دماغ پر عجیب وغریب سوچوں کا راج تھا 

اک طرف آیاں نے اپنے مستقبل کے لے بہت سے خواب دیکھے تھے اور دوسری جانب دل میں ایک ڈر تھا کے انکل نے انکار کر دیا تو اپنی پہلی مبحت سے ہاتھ دھو بہٹوں گا 

***

چاند کی چودہ تاریخ تھی چاند پورے آب وتاب سے آسمان پر اپنی چاندنی کا راج بکھرے ہوے تھا آیاں نے چاند کو دیکھ کر اک نظم کہی 



 *پھر چاند نکخود*

*پھر رات تھمی*

*پھر دل نے کہا*

*ہے تیری کمی* 

*پھر چاند کا جھونکا مہک گئے* 

*پھر پاگل ارماں بہک گئے* 

*پھر جنت سی لگتی ہے زمین* 

*پھر دل نے کہا* 

*ہے تیری کمی* 

*پھر گزرے لمحوں کی بات ہے* 

*پھر جاگی جاگی سی رات ہے* 

*پھر بھر گئی پلکوں پے نمی*

*پھر دل نے کہا* 

*ہے تیری کمی*

 آج کی رات گھر میں کھانے کا اہتمام کیا۔کھانے میں طرح طرح کے لوزمات رکھے گے ۔آیاں دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا کھانے کھانے کے بعد آخر کر انکل سے اپنے دل کی بات کہ ڈالی۔سدرہ کے والد آیاں کے فیصلے سے نہ صرف خوش تھے بلکہ مطمئن بھی تھے کیونکہ آیاں ایک سلجھا ہوا ،سمجھ دار، قابلِ اعتبار لڑکا تھا 

***

سدرہ کے والد نے گھر آ کر اپنی بیگم کو یہ بات بتائی اماں نے یہ بات سن کر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ خدا کا شکر ادا کرنے لگی 

***

اماں سدرہ کے پاس آئی سدرہ کو ساتھ بیٹھا کر بتایا تمہارا رشتہ آیا ہے۔لڑکا پڑھا لکھا سلجھا ہوا اور اک اچھے گرانے سے تعلق رکھتا ہے تمہارے بابا کو کوئی اعتراض نہیں ہے 

کیا تم اس رشتے سے خوش ہو ؟؟

سدرہ اماں کا چہرا دیکھتی رہ گئی اور ساتھ ہی آیاں کا خیال آنے لگا  اپنی آنکھیں بند کی تو بابا اماں کا مسکراتا ہوا چہرا نظر آیا موں دھویا اور اماں سے "ہاں " کہ دی 

***

صبح ہی عاشر ایان اور ان کی مو بولی خالہ مٹھائی کا ڈبہ لے کر سدرہ کے گھر پہنچ گئی سدرہ کو جب معلوم ہوا اس کی شادی آیاں سے ہو رہی ہے اس کی خوشی کا کوئی ٹھیکانہ نہ تھا اپنے ڈوپھٹے کو لہراءے کمرے میں گوم رہی تھی اپنی آنکھوں میں خوا سجانے لگی

***

سدرہ اور آیاں کی شادی ہو چکی تھی بیڈ پر دلہن بنے ایان کا انتظار کرنے لگی دروازے کی دستک سے سدرہ کا دل تیزی سے ڈھڑکنے لگا بیڈ پر بھیٹے آیاں نے سدرہ کو دیکھا اور اظہارِ مبحت میں ایک نظم سنائی ۔


*دبی دبی سی وہ مسکراہٹ لبوں پہ اپنے سجا سجا کے* 

*وہ نرم لہجے میں بات کرنا ادا سے نظریں جھکا جھکا کے*

*وہ آنکھ تیری شرارتی سی وہ زلف ماتھے پہ باحیا سی* 

*نظر ہے کہ ایک پل بھی، میں تھک گیا ہو بتا بتا کے**


*وہ تیرا ہاتھوں کی انگلیوں کو ملا کے زلفوں میں کھو سا جانا*

*حیا کو چہرے پہ پھر سے سجانا پھول سا چہرا کھلا کھلا کے وہ ہاتھ حوروں کے پھر ہوں جیسے وہ پاؤں   پریوں کے بر ہوں جیسے*

*نہیں تیری مثل جاناں میں تھک گیا ہوں بتا بتا کہ*

Post a Comment

0 Comments